یاس
مورد ظلم ہوں آماج گہ تیر ہوں میں
تختۂ مشق ستم قیدئ زنجیر ہوں میں
سیکڑوں دشمن سفاک لگے ہیں پیچھے
کتنے ہی ناوک بیداد کا نخچیر ہوں میں
شوکت رفتہ کی تخئیل بھی اب مشکل ہے
محفل دوش کی مٹتی ہوئی تصویر ہوں میں
کس قدر اپنی تباہی پہ کروں نوحہ زنی
مختصر یہ ہے کہ پھوٹی ہوئی تقدیر ہوں میں
ہم نشیں سیل حوادث میں بہا جاتا ہوں
سرحد موت سے نزدیک ہوا جاتا ہوں
امید
ہے غلط نوحۂ غم گوہر شہوار ہے تو
فی الحقیقت بڑی عزت کا سزا وار ہے تو
موجزن ہے تری رگ رگ میں شہیدوں کا لہو
بدر و احزاب کی جنگوں کا علم دار ہے تو
جرأت خالد جاں باز ملی ہے تجھ کو
وارث زور شہ حیدر کرار ہے تو
کون کہتا ہے تجھے جنس دنی ہیچ مبرز
تو بہت کچھ ہے اگر مسلم بیدار ہے تو
تو اگر چاہے نکل سکتی ہے صحرا میں بھی راہ
سعئ پیہم کے لیے کوہ گراں اک پر کاہ
کون کہتا ہے کہ سامان سے وابستہ ہے
تیری عزت ترے ایمان سے وابستہ ہے
سب سے اول تجھے لازم ہے خدا کی پہچان
آدمیت اسی عرفان سے وابستہ ہے
خود گرا پڑتا ہے لازم ہے خدا کی پہچان
تیری وقعت بھی تری آن سے وابستہ ہے
اس سے کٹ جائے تو کوڑی بھی نہیں مول ترا
قدر و قیمت تری قرآن سے وابستہ ہے
تو ہے شاکی کہ زمانہ نے تجھے کھویا ہے
اور زمانے کو شکایت ہے کہ تو سویا ہے
نظم
یاس و امید
عروج قادری