EN हिंदी
یادوں کا لمس | شیح شیری
yaadon ka lams

نظم

یادوں کا لمس

لئیق اکبر سحاب

;

نہیں تنہا نہیں ہوں میں
تمہارے سحر کے دھاگوں نے

میرے جسم و جاں کو باندھ رکھا ہے
حسیں یادوں کا شیریں لمس

میری روح کو چھو کر
مری آنکھوں سے بہتا ہے

تم اپنی انگلیوں کی نرم پوروں سے
مرے ہاتھوں کو چھوتے ہو

بہت دھیرے سے
تم اپنے دہکتے لب مرے گالوں پہ رکھ کر

آنسوؤں کو پونچھ دیتے ہو
میں اپنی بند آنکھوں میں

حسیں قوس قزح اور تتلیوں کے رنگ تکتی ہوں
محبت کے پرندے گیت گاتے ہیں

فضائیں گنگناتی ہیں
تمہارے بازوؤں نے میرے تن کو

تھام رکھا ہے
تمہاری سانس کی خوشبو

مری سانسوں میں الجھی ہے
تمہیں چھوتی

تمہیں محسوس کرتی ہوں
میں تم سے پیار کرتی ہوں

جدھر دیکھوں تمہی تم ہو
ہر اک پل میں تمہی تم ہو

جہاں تم ہو وہیں ہوں میں
نہیں تنہا نہیں ہوں میں