خاموشی اور پھولوں کو مت توڑو
ورنہ بہت سی باتوں سے بھری ہوئی یہ رات
زندگی سے خالی ہو جائے گی
ہماری صبحیں اس اندھیرے میں چھپی ہیں
انہیں مت ڈھونڈو
وہ رات میں بولنے والے جھینگروں کی طرح ہوتی ہیں
جو خاموش ہو جانے پر نہیں ملتے
میں نے اپنے ہیرے
زمین کے جس حصے میں چھپائے تھے
وہاں کوئی بادل بھی نہیں تھا
اور مجھے یاد آتا ہے
ان دنوں میری ہر چیز برف سے بنی ہوتی تھی
نظم
یادیں
ذیشان ساحل