عہد ماضی کے جھروکوں سے چلی آتی ہیں
مسکراتی ہوئی یادیں میری
گنگناتی ہوئی یادیں میری
اور محسوس یہ ہوتا ہے مجھے
جیسے بنجر سی زمیں
قطرۂ ابر گہر بار سے شاداب بنی
جیسے صحرا میں بھٹکتے ہوئے اک راہی کو
چشمۂ آب ملا
جیسے پامال تمنائیں ترشح پا کر
پھر تر و تازہ ہوئیں
جیسے ترسیدہ کلی
مسکراہٹ سے دل آویز بنے
ایک لمحہ کے لیے
سینۂ سوزاں مرا
شبنمی یاد سے مسکاتا ہے
ایک لمحہ کے لیے
کپکپاتی ہوئی سہمی ہوئی ہستی میں
انہیں یادوں کی حلاوت میں سما جاتی ہے
یہی یادیں تو مری زیست کا سرمایہ ہیں
مسکراتی ہوئی یادیں میری
گنگناتی ہوئی یادیں میری
نظم
یادیں
زرینہ ثانی