یادیں ہوتی ہیں سمندر کے
ساحل پر گھومتے ایک بچے کی طرح
جو اٹھا کر کسی سیپی
کسی کنکڑ کو رکھ لے
اپنے ننھے سے خزانے میں
اور پھر ایک دن وہی کنکڑ
ہاتھوں سے چھوٹ جاتے ہیں انجانے میں
پھر جٹ جاتا ہے وہ نادان
بٹور کر انہیں
پھر سے سجانے میں
نظم
یادیں
ؔآدتیہ پنت ناقد