رات کے گہرے سناٹے میں
میں گھر کے آنگن میں تنہا
چاند کو کب سے دیکھ رہا ہوں
دل کی دیواروں کو کب سے
غم کی دیمک چاٹ رہی ہے
ذہن کے لمبے سے کمرے میں
میرے ماضی کی الماری
جس کے دونوں ہی در وا ہیں
غور سے مجھ کو دیکھ رہی ہے
جی میں یہ آتا ہے میرے
ماضی کی اس الماری سے
جس میں بری بھلی سب یادیں
اوپر نیچے چنی ہوئی ہیں
چند سہانی یادیں لے لوں
اور سجا لوں دل میں اپنے
لیکن سوچ کے یہ ڈرتا ہوں
غم کی دیمک ان یادوں کو
دو ہی پل میں چاٹ نہ جائے
یادوں کی یہ پیاری شکلیں
پھر میں کیسے دیکھ سکوں گا!
نظم
یادیں
آفتاب شمسی