EN हिंदी
یاد | شیح شیری
yaad

نظم

یاد

شوکت پردیسی

;

سہانی رات میں دل کش نظارے یاد آتے ہیں
نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں

اسی صورت سے دن ڈھلتا ہے سورج ڈوب جاتا ہے
اسی صورت سے شبنم میں ہر اک ذرہ نہاتا ہے

تڑپ جاتا ہوں میں جب دل ذرا تسکین پاتا ہے
اسی انداز سے مجھ کو سہارے یاد آتے ہیں

نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں
اکیلے میں تمہاری یاد سے بچ کر کہاں جاؤں؟

لب خاموش کی فریاد سے بچ کر کہاں جاؤں؟
تمہیں کہہ دو دل ناشاد سے بچ کر کہاں جاؤں؟

کنایوں کو بھلاتا ہوں اشارے یاد آتے ہیں
نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں

نگاہوں میں ابھی تک ہے اسی دن رات کا منظر
تمہارے ساتھ میں بیتے ہوئے لمحات کا منظر

مچلتے، مسکراتے، جاگتے، جذبات کا منظر
تصور آفریں وہ شاہ پارے یاد آتے ہیں

نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں
مری نظروں سے اوجھل اب مقام جہد ہستی ہے

نہ وہ احساس عشرت ہے، نہ وہ انجم پرستی ہے
اکیلا جان کر مجھ کو مری تنہائی ڈستی ہے

مجھے بیتے ہوئے لمحات سارے یاد آتے ہیں
نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں

تمناؤں کے میلے اب نہیں لگتے کبھی دل میں
کشش باقی رہی کوئی نہ راہوں میں، نہ منزل میں

دھواں سا اب نظر آتا ہے مجھ کو ماہ کامل میں
تمہارے ساتھ جتنے دن گزارے یاد آتے ہیں

نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں
گلہ اس کا نہیں کیوں تم نے مجھ سے اپنا منہ موڑا

نہیں قابو تھا اپنے دل پہ پیمان وفا توڑا
تمہاری یاد نے لیکن نہ کیوں اب تک مجھے چھوڑا

یہ کیوں پیہم مجھے پیماں تمہارے یاد آتے ہیں
نہیں ہو تم مگر وہ چاند تارے یاد آتے ہیں