ہچکیاں آتی ہیں دل ڈوب رہا ہے شاید
آج بھولے سے تمہیں یاد مری آئی ہے
یاد ہے تم نے اک امردو جو کچا تھا ابھی
نام سے میرے چنا تھا جس پر
اپنے ہاتھوں سے سیہ کپڑا بھی باندھا تھا مگر
جس کی لگنی تھی نظر لگ کے رہی
کیا اسی پیڑ کے نیچے ہو ذرا سوچو تو
بے ثمر شاخ لچکتی ہے تو کیا ہوتا ہے
نظم
یاد فراموش
جاوید کمال رامپوری