کوئی ہے
کوئی بغداد کی فریاد سنتا ہے
کوئی ہوگا جسے آواز آتی ہو
کسی دشمن کے ٹاپوں کی
دھماکوں کی
عراقی کوکھ کو یوں روندتے ہیں
ٹینک دشمن کے
کہ زخم خون تھوکنے لگے بغدادی بدن کے
فرات و دجلہ کے پانی کو کس نے خاک کر ڈالا
کہ دشمن نے مری جنت کو بھی ناپاک کر ڈالا
الف لیلیٰ شہزادی کے کپڑے پھاڑ ڈالے ہیں
فرنگی نے مرے بچپن کے قصے پھاڑ ڈالے ہیں
بدن جلتے ہوئے بچوں کی یہ بجھتی ہوئی آنکھیں
عراقی آسماں سے سر اٹھا کر بس یہی پوچھیں
ابابیلیں اترتی کیوں نہیں دکھتیں زمینوں پر
ہمارے دشمنوں کے سرد سینوں پر
وہ بچے جانتے کب ہیں
ابابیلیں شہر سے دور اپنے گھونسلوں میں
سیر ہو کر نیند میں گم ہیں
وہ بچے جانتے کب ہیں
ابابیلیں ابابیلیں نہیں ہیں
میں اور تم ہیں
وہ بچے جانتے کب ہیں
کہ ان کے خون کے قطرے ہماری سرحدوں تک
آتے آتے سوکھ جاتے ہیں
ہماری حد ہے اور سرحد بھی ہے حاکم کے حکم سے
خدا کا حکم ہے چھوٹا یہاں ظالم کے حکم سے
شرابوں میں ڈبو دی ہیں مرے حاکم نے شمشیریں
جلا دی ہیں سبھی آبا کی تصویریں
مسلمانوں کی تقدیریں
مرے بچو
مرے بغداد کے سینے پہ پڑے ادھ مرے بچو
کوئی عیسیٰ نہ آئے گا مسیحائی کوئی لے کر
تمہاری ہم سے جو امید ہے
وہ بے ثمر ہے
ہماری اپنی زمیں ہے
ہمارا اپنا بھی گھر ہے
تمہاری آس اندھی ہے تمہارا خواب کالا ہے
ہمارے دور کی مریم نے عیسیٰ مار ڈالا ہے
نظم
ویپنس آف ماس ڈسٹرکشن
علی عمران