سلمان کے نام
وہ پل
جب تمہیں کوکھ سے جن کے
امید و امکاں کا تارا سمجھ کر
میں نے آغوش میں بھر لیا تھا
وہ پل
سرخ کلیوں کو جب
اپنے سینے کی دھارا سے سینچا تھا
اور اپنی ہی تشنگی کا مداوا کیا تھا
ایک ننھے سے چہرے کے
نازک خد و خال میں ڈوب کر
جب مری روح پروان چڑھنے لگی تھی
وہ پل
جب مری شب گزاری کی
محنت کشی میں
تمہاری نمو کی گہر بار آسودگی تھی
وہ پل
راحت بزم موجود و امکاں
جب مری گود میں سو گئی تھی
وہ پل
جب مری آتما
اور پر ماتما
اک مدھر روپ میں ڈھل گئے تھے
میرے آنگن میں
معصوم سی روشنی تھی
وہ پل
وقت کی رہ گزر میں
بہت دور پیچھے کہیں رہ گیا ہے
غبار سفر کے دھندلکوں میں
نظروں سے اوجھل ہوا ہے
اور اب
جب کہ تم آئے ہو
اپنے ہی گھر میں مہمان بن کے
تمہیں دور جانا ہے
مصروف ہو
وقت تھوڑا ہے
آگے مری زندگی کی ڈگر پر
ساعت واپسیں منتظر ہے
اس گھڑی
گرچہ میری گھڑی اپنی رفتار سے چل رہی ہے
مگر
میری آنکھوں کی سوکھی نمی
پرانے کواڑوں کی چوکھٹ میں
نہ جانے کیوں
جذب ہونے لگی ہے
اور
اس گھر کے دیوار و در اپنی اپنی جگہ چپ کھڑے ہیں

نظم
وہ پل یہ گھڑی
ساجدہ زیدی