وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو
میں ان سے کہہ دوں
کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے
وہ رنج ہستی کہ زہر بن کر
مرے لہو میں سما چکا ہے
مرے تصور میں بس چکا ہے
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو
میں رات دن کی ادھڑپن میں
وہ کرچیاں بھی سمیٹ لوں گی
جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں
جو میری سانسوں کو ڈس رہی ہیں
مجھے یقیں ہے کہ کانچ کا یہ حسین دھوکا
فریب کا بے کراں سراپا
ذرا سی آہٹ سے گر پڑے گا
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو
سنو
یہ ممکن نہیں ربا اب
کہ میرا دل میرا خوش نظر دل
کوئی تسلی نہیں سنے گا
کوئی حوالہ نہیں سنے گا
میں جانتی ہوں
یہ میرا وحشی اداس دل ہے
جو تجھ سے مجھ سے الگ تھلگ ہے
اسے مٹانا نہیں ہے ممکن
اسے تو جنگل کی آس ہے اب
تلاش یادو کی باس ہے اب
مجھے تو حیرت سی ہو رہی ہے
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
نظم
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
شائستہ مفتی