اک دن
تم نے مجھ سے کہا تھا
دھوپ کڑی ہے
اپنا سایہ ساتھ ہی رکھنا
وقت کے ترکش میں جو تیر تھے کھل کر برسے ہیں
زرد ہوا کے پتھریلے جھونکوں سے
جسم کا پنچھی گھایل ہے
دھوپ کا جنگل پیاس کا دریا
ایسے میں آنسو کی اک اک بوند کو
انساں ترسے ہیں
تم نے مجھ سے کہا تھا
سمے کی بہتی ندی میں
لمحے کی پہچان بھی رکھنا
میرے دل میں جھانک کے دیکھو
دیکھو ساتوں رنگ کا پھول کھلا ہے
وہ لمحہ جو میرا تھا وہ میرا ہے
وقت کے پیکاں بے شک تن پر آن لگے
دیکھو اس لمحے سے کتنا گہرا رشتہ ہے
نظم
وہ لمحہ جو میرا تھا
ادا جعفری