صبا کے سبز خطے سے
سنہرے موسموں کی آرزو لے کر
دیار جاں میں کیوں آیا
وہ جس کی آنکھ چمکیلے دنوں کا کھوج دیتی ہے
جہاں رنگوں کی دھن میں آشنا منظر تحیر کے
کھلی خواہش کے پانی میں
ابھرتے تیرتے ہیں ڈوب جاتے ہیں
وہ مجھ سے پوچھتا ہے سینکڑوں اسرار جینے اور مرنے کے
نظر کا روشنی سے رابطہ کیا ہے
لہو کو چاندنی سے کیا تعلق ہے
فضا کی گود میں دم توڑتی قوس قزح کیوں ہے
بچھڑنا یاد رکھنا بھول جانا کس کو کہتے ہیں
متاع ہستیٔ بے خانماں کیا ہے
زمیں کیا ہے زماں کیا ہے
مگر میں لفظ گر ہوں کیسے سمجھاؤں
کہ میرے تجربے کی وسعتوں میں بھی
صبا کے سبز خطے سے مرے سکھ کی قلمرو تک
تحیر کا علاقہ ہے
جہاں نیلے گھروندوں سے
سوالوں کے پرندے مائل پرواز رہتے ہیں
گماں کی سر زمینوں کو
صبا کے سبز خطے کو
نظر کے بادبانوں سے
کھلی خواہش کے پانی تک
پرندے حیرتوں کی تازہ منزل کا اشارہ ہیں
پرندے آگہی کا استعارہ ہیں

نظم
وہ کیوں آیا
شاہد ملک