EN हिंदी
وہ کیا مصلحت تھی | شیح شیری
wo kya maslahat thi

نظم

وہ کیا مصلحت تھی

عارفہ شہزاد

;

میں آغاز ہستی سے حوا کی صورت
ہوں آدم کی خواہش کا اک شاخسانہ

زمیں کو بسانے کا بس اک بہانہ!
میں روز ابد نیکیوں کا صلہ ہوں

نہ جانے میں کیا ہوں
گلہ خالق کل سے کیسے کروں میں

اسی کی رضا ہوں
یہ ہے فخر آدم

کہ بس ابن آدم
امین خدا ہے قرین خدا ہے

مری ہستی کیا ہے
فقط واسطہ ہے!

یہ تسلیم ہے
ہر صحیفے میں

میں عابدہ مومنہ صالحہ تھی
مگر جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تھا

تو حوا کہاں تھی
میں روحوں کے اقرار کے وقت

جانے کہاں کون سی صف میں تھی
یا نہیں تھی؟

اگر تھی تو اقرار بھی تو کیا تھا
عدم میں اگر روح خود مکتفی تھی

تو پھر خالق کن فکاں کی وہ کیا مصلحت تھی
کہ میں دوسری تھی!!