میں جب بھی
زندگی کی چلچلاتی دھوپ میں تپ کر
میں جب بھی
دوسروں کے اور اپنے جھوٹ سے تھک کر
میں سب سے لڑ کے خود سے ہار کے
جب بھی اس ایک کمرے میں جاتا تھا
وہ ہلکے اور گہرے کتھئی رنگوں کا اک کمرہ
وہ بے حد مہرباں کمرہ
جو اپنی نرم مٹھی میں مجھے ایسے چھپا لیتا تھا
جیسے کوئی ماں
بچے کو آنچل میں چھپا لے
پیار سے ڈانٹے
یہ کیا عادت ہے
جلتی دوپہر میں مارے مارے گھومتے ہو تم
وہ کمرہ یاد آتا ہے
دبیز اور خاصا بھاری
کچھ ذرا مشکل سے کھلنے والا وہ شیشم کا دروازہ
کہ جیسے کوئی اکھڑ باپ
اپنے کھردرے سینے میں
شفقت کے سمندر کو چھپائے ہو
وہ کرسی
اور اس کے ساتھ وہ جڑواں بہن اس کی
وہ دونوں
دوست تھیں میری
وہ اک گستاخ منہ پھٹ آئینہ
جو دل کا اچھا تھا
وہ بے ہنگم سی الماری
جو کونے میں کھڑی
اک بوڑھی انا کی طرح
آئینے کو تنبیہ کرتی تھی
وہ اک گلدان
ننھا سا
بہت شیطان
ان دنوں پہ ہنستا تھا
دریچہ
یا ذہانت سے بھری اک مسکراہٹ
اور دریچے پر جھکی وہ بیل
کوئی سبز سرگوشی
کتابیں
طاق میں اور شیلف پر
سنجیدہ استانی بنی بیٹھیں
مگر سب منتظر اس بات کی
میں ان سے کچھ پوچھوں
سرہانے
نیند کا ساتھی
تھکن کا چارہ گر
وہ نرم دل تکیہ
میں جس کی گود میں سر رکھ کے
چھت کو دیکھتا تھا
چھت کی کڑیوں میں
نہ جانے کتنے افسانوں کی کڑیاں تھیں
وہ چھوٹی میز پر
اور سامنے دیوار پر
آویزاں تصویریں
مجھے اپنائیت سے اور یقیں سے دیکھتی تھیں
مسکراتی تھیں
انہیں شک بھی نہیں تھا
ایک دن
میں ان کو ایسے چھوڑ جاؤں گا
میں اک دن یوں بھی جاؤں گا
کہ پھر واپس نہ آؤں گا
میں اب جس گھر میں رہتا ہوں
بہت ہی خوبصورت ہے
مگر اکثر یہاں خاموش بیٹھا یاد کرتا ہوں
وہ کمرہ بات کرتا تھا
نظم
وہ کمرہ یاد آتا ہے
جاوید اختر