EN हिंदी
وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں | شیح شیری
wo kaise log hote hain jinhen hum dost kahte hain

نظم

وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں

عرفان احمد میر

;

وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں
نہ کوئی خون کا رشتہ نہ کوئی ساتھ صدیوں کا

مگر احساس اپنوں سا وہ انجانے دلاتے ہیں
وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں

خفا جب زندگی ہو تو وہ آ کے تھام لیتے ہیں
رلا دیتی ہے جب دنیا تو آ کر مسکراتے ہیں

وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں
اکیلے راستے پہ جب میں کھو جاؤں تو ملتے ہیں

سفر مشکل ہو کتنا بھی مگر وہ ساتھ جاتے ہیں
وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں

نظر کے پاس ہوں نہ ہوں مگر پھر بھی تسلی ہے
وہی مہمان خوابوں کے جو دل کے پاس رہتے ہیں

وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں
مجھے مسرور کرتے ہیں وہ لمحے آج بھی عرفانؔ

کہ جن میں دوستوں کے ساتھ کے پل یاد آتے ہیں
وہ کیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ہم دوست کہتے ہیں