EN हिंदी
وہ اک لمحہ | شیح شیری
wo ek lamha

نظم

وہ اک لمحہ

فاطمہ حسن

;

بیت گئے ہیں کتنے دن
جب تم نے یہ مجھ سے کہا تھا

تم مجھ کو اچھی لگتی ہو
اور میرے ہاتھوں پر تم نے

ایک وہ لمحہ چھوڑ دیا تھا
وہ لمحہ جو ان دیکھی زنجیر کی صورت

روح سے لپٹا دل میں اترا
خون میں تیر گیا

آج اسی لمحے کو تھامے
کھڑی ہوئی ہوں سیڑھی پر