وہ حرف جو فضائے نیل گوں کی وسعتوں میں قید تھا
وہ صوت جو حصار خامشی میں جلوہ ریز تھی
صدا جو کوہسار کی بلندیوں پہ محو خواب تھی
ردائے برف سے ڈھکی
وہ لفظ جو فضا کے نیلے آنچلوں سے چھن کے
جذب ہو رہا تھا
ریگ زار وقت میں
جو ذرہ ذرہ منتشر تھا
دھندلی دھندلی ساعتوں کی گرد میں
وہ معنیٔ گریز پا
لرز رہا تھا جو رگ حیات میں
وہ رمز منتظر کہ جو ابھی نہاں تھا
بطن کائنات میں
وہ حرف و صوت و صدا
وہ لفظ منتشر
وہ رمز منتشر
وہ معنیٔ گریز پا
بس ایک جست میں
حصار خامشی کو توڑ کر
پگھل کے میرے درد و آرزو کی آنچ میں
نوا و نطق کی صباحتوں میں ڈھل گیا
وہ آبشار نغمہ و نوا
کہ کوہسار سرد سے گرا
کہ گونجتی گپھاؤں سے ابل پڑا
وہ جوئے ذات
نغمۂ حیات
جو رواں دواں ہے بحر بیکراں کی کھوج میں
نظم
وہ حرف و صوت و صدا
زاہدہ زیدی