ہاتھ میں تابوت تھامے ان دنوں کے
جن دنوں اس لالٹینوں کی گلی میں
ہم نے مل کر
اپنے مستقبل کے اس گھر کو سجایا
لالٹینوں کی گلی کا آخری گھر
تیرا میرا گھر
دھوپ میں سہما کھڑا ہے
جس کی چھت پر
مکڑیوں کے جال میں الجھے سے
خواب اپنے
منتشر ہیں
گھر کی دیواروں سے الجھی
چینوٹیوں کی ماتمی سی کچھ قطاریں رینگتی ہیں
خستہ شہتیروں میں دب کر
اک گوریا کا گھر
بکھرا پڑا ہے
نظم
وہ ہمارا گھر
جگدیش پرکاش