EN हिंदी
وہ بستی یاد آتی ہے | شیح شیری
wo basti yaad aati hai

نظم

وہ بستی یاد آتی ہے

فاروق بخشی

;

وہ بستی یاد آتی ہے
وہ چہرے یاد آتے ہیں

وہاں گزرا ہوا
اک ایک پل یوں جگمگاتا ہے

اندھیری رات میں اونچے کلس
مندر کے جیسے جھلملاتے ہیں

وہاں بستی کے اس کونے میں
وہ چھوٹی سی اک مسجد

کہ جس کے صحن میں
مرے اجداد کی پیشانیوں کے ہیں نشاں اب تک

اسی کے پاس تھوڑی دور پر بہتی ہوئی گنگا
مجھے اب بھی بلاتی ہے

وہ گنگا جس کا پانی
مری رگ رگ میں بہتا ہے

لہو بن کر ہمکتا ہے
مجھے اب بھی بلاتا ہے

اگر مانو تو وہ ماں ہے
نہ مانو تو فقط بہتا ہوا پانی ہے

دریا ہے
مجھے اب بھی بلاتا ہے