اس کو مرے خوابوں کا رستہ
جانے کس نے دکھایا ہے
میں جب آدھی رات کو تھک کر
اپنے آپ پہ گرتا ہوں
وہ چپکے سے آ جاتی ہے
سبز سنہرے خواب لیے
نرم گلابی ہاتھوں سے مرے بالوں کو سلجھاتی ہے
دھیمے سروں میں
فیضؔ کی نظم سناتی ہے
میں اس کو دیکھتا رہتا ہوں
نیند میں جاگتا رہتا ہوں
اور وہ میرے بازو پر
سر رکھ کر سو جاتی ہے
سپنوں میں کھو جاتی ہے
وہ خواب میں ہنستی رہتی ہے
میں جاگ کے روتا رہتا ہوں
نظم
وہ اور میں....
فہیم شناس کاظمی