وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آئے گی اور گر پڑے گی
میں نقشے کی مدد سے اس کے گرنے کی خبر دوں گا
سمندر بے بضاعت ہے اگل دیتا ہے نیلی کشتیوں کو
آسماں کھڑکی سے باہر پھینک دیتا ہے جہازوں کو
ستارے دیکھ کر چلتے نہیں مٹی اڑا لے جائے گی ان کو
سو یہ وہ ساعتیں ہیں جب نہیں چلتے ستارے
اور مٹی پھیل جاتی ہے
وہ اپنی آستینیں دھو کے گھر آئے گی اور ان کو اجالے میں سکھائے گی
محبت ایک ڈھیلا لفظ ہے اس کے سمٹنے کا
سو وہ تو کشتنی ہے جو نہیں نکلا سفر پر اور نقشے کی مدد سے اپنے گھر پہنچا
میں آنکھیں بند کر لوں گا
وہ لمبی راہداری کے سرے پر آئے گی اور گر پڑے گی
میں نقشے کی مدد سے اس کے گرنے کی خبر دوں گا
نظم
وہ اپنے ہاتھ میں دنیا کی تہذیبیں اٹھائے آئے گی
محمد انور خالد