سب بارشیں ہو کے تھم چکی تھیں
روحوں میں دھنک اتر رہی تھی
میں خواب میں بات کر رہا تھا
وہ نیند میں پیار کر رہی تھی
احوال ہی اور ہو رہے تھے
لذت میں وصال رو رہے تھے
بوسوں میں دھلے دھلائے دونوں
نشے میں لپٹ کے سو رہے تھے
چھوٹا سا حسین سا وہ کمرہ
اک عالم خواب ہو رہا تھا
خوشبو سے گلاب ہو رہا تھا
مستی سے شراب ہو رہا تھا
وہ چھاؤں سا چاندنی سا بستر
ہم رنگ نہا رہے تھے جس پر
یوں تھا کہ ہم اپنی ذات کے اندر
تھے اپنا ہی ایک اور منظر
سیراب محبتوں کے دھارے
باہم تھے وجود کے کنارے
موضوع سخن، سخن تھے سارے
عالم ہی عجیب تھے ہمارے
جاگے وہ لہو میں سلسلے پھر
تن من کے وہی تھے ذائقے پھر
تھم تھم کے برس برس گئے پھر
پاتال تک ہو گئے ہرے پھر
جاری تھا وہ رقص ہمکناری
نکلی نئی صبح کی سواری
ایسا لگا کائنات ساری
اس آن تو ہے فقط ہماری
جب چاند مرا نہا کے نکلا
میں دل کو دیا بنا کے نکلا
کشکول دعا اٹھا کے نکلا
شاعر تھا صدا لگا کے نکلا
دریا وہ سمندروں سے گہرے
وہ خواب گلاب ایسے چہرے
سب زاویوں ہو گئے سنہرے
آئینوں میں جب وہ آ کے ٹھہرے
نظم
وصالیہ
عبید اللہ علیم