وصال موسم
تمہارے ابرو کے اک اشارے کا منتظر ہے
نظر اٹھاؤ
اور اپنے رستے پہ کھلنے والے گلاب دیکھو
سماعتوں سے کہو خموشی
نگاہ اور آئینے کے مابین
سخن کا آغاز کر رہی ہے
ہوا سے پوچھو
وہ کس بدن کی مہک سے پیہم الجھ رہی ہے
سنو یہ موسم وصال کا ہے
سو اس کو یوں رائیگاں نہ جانو
اگر تم اذن سفر نہ دو گے
تو پھر یہ موسم
گلاب رت میں بھی زرد پتوں کا بھیس بدلے
تمہارے آنگن سے جا ملے گا
اور آئنوں سے گلہ کرے گا
نظم
وصال موسم
خالد معین