مسیح وقت تم بتاؤ کیا ہوا
زباں پہ یہ کسیلا پن کہاں سے آ گیا
ذرا سی دیر کے لیے پلک جھپک گئی
تو راکھ کس طرح جھڑی
سنا ہے دور دیس سے
کچھ ایسے وائرس ہمارے ساحلوں پہ آ گئے
جن کے تابکار سحر کے لیے
امرت اور زہر ایک ہیں
اب کسی کے درمیان کوئی رابطہ نہیں
کسی دوا کا درد سے کوئی واسطہ نہیں
ہم ہوا کی موج موج سے
درد کھینچتے ہیں چھوڑتے ہیں سانس کی طرح
لہو کی ایک ایک بوند زخم بن گئی
رگوں میں جیسے بددعائیں تیرتی ہیں
پھانس کی طرح
مسیح وقت تم بتاؤ کیا ہوا
دیو علم کے چراغ کا
کیوں بھلا بپھر گیا
دھواں دھواں بکھر گیا
سنو کہ چیختا ہے کام کام
کوئی کام
جاؤ ساحلوں کی سمت ہو سکے تو روک لو
اس نئے عذاب کو
ناخدا کی آخری شکست تک
سمندروں کی ریت چھانتے رہو
نظم
وائرس
قاضی سلیم