EN हिंदी
وراثت | شیح شیری
wirasat

نظم

وراثت

اشوک لال

;

جب اندھیرے سے میں ڈر جاتا ہوں اب بھی اکثر
تیری انگلی کو پکڑنے کا خیال آتا ہے

مسکراہٹ ہو یا آہیں یا خوشی کے آنسو
ہر اک احساس کی لذت میں سمایا ہے تو

جب ابھرتی ہے رسوئی سے رسیلی خوشبو
جب کسی پھول کے چہرہ پہ جمال آتا ہے

تیری انگلی کو پکڑنے کا خیال آتا ہے
میری آواز زباں اور مرا انداز بیاں

میرے احساس و خیالات نظریہ امکاں
تو نے ہی باندھے مرے ساتھ کے ساز و ساماں

پھر بھی گر من میں مرے کوئی وبال آتا ہے
تیری انگلی کو پکڑنے کا خیال آتا ہے

شمع امید لرزتی ہے سحر سے پہلے
جب اترتی ہے تھکن دل میں سفر سے پہلے

خون ہو جاتے ہیں ارمان اثر سے پہلے
راستے میں کوئی پیچیدہ سوال آتا ہے

تیری انگلی کو پکڑنے کا خیال آتا ہے