یہ کھیل گڑیوں کے
ریت محلوں کے
پیڑ پتھر پہ نام لکھنے کے
تیز سبقت کے
پیش و پس کے
جو سوچیے تو ہنسی بھی آئے
مدار حسرت بکھر رہا ہے
بدن کا کانسا پگھل رہا ہے
یہ روح بے باک پھر رہی ہے
تمام تر جستجو کی دھڑکن
تمام تر آرزو کا ایندھن
کہیں کسی سے الجھ رہی ہے
تو اپنی ساری تپش میں اس کو جلا رہی ہے
گلے کسی کو لگا لیا
تو سپردگی کے عروج پر جھلملا رہی ہے
مرے پگھلتے ہوئے بدن کو
نئی خبر لا کے دے رہی ہے
نظم
وجدان
ابرارالحسن