بٹن آغاز کا دبتے ہی میں نے
راستوں میں جا بہ جا بکھری ہوئی قوت
ہر اک انداز سے خود میں انڈیلی تھی
کتابیں اور سکھیاں خواب اور منظر
صحیفوں کے سنہرے حرف سب جھولی میں ڈالے تھے
خبر تھی جس مہم جوئی پہ نکلی ہوں
یہاں چلنا مسلسل راہ دلدل اور توانائی مرا واحد حوالہ ہے
بڑی مدت ہوئی چلتے ہوئے مجھ کو
چٹانیں ہیں اور ان کے بعد اک کالا سمندر ہے
ہرے اودے جزیروں سے بھرا ہے
جن پہ پاؤں رکھتی جاؤں تو سمندر کچھ نہیں کہتا
یہ دیکھو ایک پل ہے
تختہ تختہ گرتا جاتا ہے
اسے گرنے سے پہلے پار کرنا ہے
یہ تختے تو بہانہ ہیں
مرے پاؤں ہوا میں ہیں
اب آگے سیکڑوں شاخہ کوئی چھتنار ہے
جس کی سبھی شاخوں سے اونچی شاخ پر مکار دشمن ہے
اسے یا مارنا ہے یا مجھے بچ کر نکلنا ہے
یہ اگلا مرحلہ ہے
اب وہ دشمن دو بدو ہے وار کرتا ہے
میں اوندھے منہ نہ جانے کن نشیبوں میں لڑھکتی ہوں
اچھالا خود کو دیتی ہوں
تو اک بالشت سے ہر بار رہتی ہوں
نہیں میں اس مہم جوئی سے گھبرائی نہیں ہوں
فکر بس یہ ہے
مرے رستے میں اب قوت نہیں ہے
بس مسافت ہے
نظم
ویڈیو گیم
صائمہ اسما