تو جب سات سو آٹھویں رات آئی
تو کہنے لگی شہرزاد:
اے جواں بخت
شیراز میں ایک رہتا تھا نائی؛
وہ نائی تو تھا ہی
مگر اس کو بخشا تھا قدرت نے
اک اور نادر گراں تر ہنر بھی
کہ جب بھی
کسی مرد دانا کا ذہن رسا
زنگ آلودہ ہونے کو آتا
تو نائی کو جا کر دکھاتا
کہ نائی دماغوں کا مشہور ماہر تھا
وہ کاسۂ سر سے ان کو الگ کر کے
ان کی سب آلائشیں پاک کر کے
پھر اپنی جگہ پر لگانے کے فن میں تھا کامل
خدا کا یہ کرنا ہوا
ایک دن
اس کی دکاں سے
ایران کا اک وزیر کہن سال گزرا
اور اس نے چاہا
کہ وہ بھی ذرا
اپنے الجھے ہوئے ذہن کی
از سر نو صفائی کرا لے
کیا کاسۂ سر کو نائی نے خالی
ابھی وہ اسے صاف کرنے لگا تھا
کہ ناگاہ آ کر کہا ایک خواجہ سرا نے:
میں بھیجا گیا ہوں جناب وزارت پنہ کو بلانے
اور اس پر
سراسیمہ ہو کر جو اٹھا وزیر ایک دم
رہ گیا پاس دلاک کے مغز اس کا
وہ بے مغز سر لے کے دربار سلطاں میں پہنچا
مگر دوسرے روز اس نے
جو نائی سے آ کر تقاضا کیا
تو وہ کہنے لگا:
حیف
کل شب پڑوسی کی بلی
کسی روزن در سے گھس کر
جناب وزارت پنہ کے
دماغ فلک تاز کو کھا گئی ہے
اور اب حکم سرکار ہو تو
کسی اور حیوان کا مغز لے کر لگا دوں
تو دلاک نے رکھ دیا
دانیال زمانہ کے سر میں
کسی بیل کا مغز لے کر
تو لوگوں نے دیکھا
جناب وزارت پنہ اب
فراست میں
دانش میں
اور کاروبار وزارت میں
پہلے سے بھی چاق و چوبند تر ہو گئے ہیں
نظم
وزیرے چنیں
ن م راشد