EN हिंदी
وطن | شیح شیری
watan

نظم

وطن

یوسف راحت

;

ترے کسان کے سینے میں حسرتوں کا ہجوم
تری فضاؤں میں ہر بیٹی ماں بہن مغموم

ترے غریب کی آنکھوں میں سیل اشک رواں
تو اک وطن ہے کہ اجڑے ہوئے وطن کا نشاں

کھنچی ہوئیں ترے ماتھے پہ اس قدر شکنیں
کھڑی ہوئیں ترے سینے پہ اتنی دیواریں

بہا ہے کتنا لہو آج تیرے دامن پر
خزاں یہ کس نے بچھائی ہے تیرے گلشن پر

اداس آنکھوں میں کتنے خوشی کے خواب ہیں آج
تری زمین کے قرض ہم پہ بے حساب ہیں آج

ہم ایک صبح درخشاں کو اب ترستے ہیں
اندھیرے تیری فضاؤں کے ہم کو ڈستے ہیں

کوئی تو آئے جو ہم کو جگائے غفلت سے
کہ ہم بھی اٹھ کے سنواریں تجھے محبت سے

ترے وجود نے جیسے ہمیں سنوارا ہے
ترے خلوص نے جیسے ہمیں نکھارا ہے