وہ چلتا رہا
اس کرۂ ارض کی گیند پر
ایک پاؤں رکھے
دوسرا پاؤں اس کا خلا میں۔۔۔
گیند آگے بڑھاتے ہوئے
توازن بھی قائم رہے۔۔۔
قیامت کو ٹالے ہوئے۔۔۔
وہ چلتا رہا
زیست اور موت کے دائرے کھینچتا۔۔۔
ایک ہی سمت میں
ایک رفتار سے
کسی بازی گر
ایک سرکس کے نٹ کی طرح
چاند سورج ستاروں کے گولے
کبھی دونوں ہاتھوں سے ان کو اچھالے
کبھی اپنے شانوں پہ۔۔۔
سر پر سنبھالے ہوئے
کبھی گونج میں تالیوں کی
بے نیازانہ چلتا ہو
ہاتھ پتلون کی۔۔۔
دونوں جیبوں میں ڈالے ہوئے۔۔۔
نظم
وقت
مصحف اقبال توصیفی