EN हिंदी
وقت کی آنکھیں | شیح شیری
waqt ki aankhen

نظم

وقت کی آنکھیں

چندر بھان خیال

;

لمحہ لمحہ خونیں خنجر
صدیاں جیبھیں ہیں سانپوں کی

گھاٹ پہ بیٹھی پیاس کی دیوی
اور جادوگر

وقت کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں
مردہ گھر کے اک کمرے کے تیز دھویں میں

ایک کنواری ننگی عورت
چاٹ رہی ہے

اپنے ہی بے رنگ لہو کو
من کی آنکھیں کھول کے دیکھوں تو کیا دیکھوں

سب تو سولی پر لٹکا ہے
سب کچھ لٹا لٹا لگتا ہے

کوئی چپکے سے کہتا ہے
ننگی عورت کی جانگھوں میں سانپ ڈال کر میں سو جاؤں

لیکن کوئی چیخ رہا ہے
وقت کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں

لمحہ لمحہ خونیں خنجر
صدیاں جیبھیں ہیں سانپوں کی