EN हिंदी
وقت کاتب ہے | شیح شیری
waqt katib hai

نظم

وقت کاتب ہے

ضیا جالندھری

;

وقت کاتب ہے تو مسطر چہرے
جب سے تحریر شناسی مری تقدیر ہوئی

وہ معانی پس الفاظ نظر آتے ہیں
جن کو پہچان کے دل ڈرتا ہے

اور ہر چہرے سے
ایک ہی چہرہ ابھر آتا ہے

جو مرا چہرہ ہے
اور امروز کا آئینہ یہ کہتا ہے کہ دیکھ

آدمی زادے تری عمر کی شام آ پہنچی
سر پہ اب راکھ اتر آئی ہے

برف کنپٹیوں پر
سالہا سال کے آلام سے چہرہ جیسے

ورق خستہ پہ پیچیدہ لکیروں کا ہجوم
حرف امید و رجا

داغ گریہ کی گرہ میں گم ہے
نقش امنگوں کے تمناؤں کے

دکھ کے دھبوں نے دبا رکھے ہیں
آج اک عمر کے آدرش کی تصویر جو دھندلائی ہے

اس کی تہمت
میری کم کوشی کے سر آئی ہے

میری خاموشی کے سر آئی ہے
لفظ زنجیر ہوا

خوف درباں ہے تذبذب زنداں
زندگی جبر مسلسل کے سبب

سرنگوں سایوں کا صحرائے سکوت
اب خرابات میں خاکستر خواب

ڈھونڈھتی پھرتی ہے ہونے کا ثبوت
وہ بھی تھے جو انہیں دشوار گزر گاہوں سے

مشعل حرف لیے پرچم ہمت تھامے
اپنے خوابوں کے تعاقب میں رواں

بے خطر جاں سے گزر جاتے تھے
میں یہاں سرد سلاخوں سے لگا تکتا ہوں

اس بیاباں میں بھی کچھ خوابوں کے رسیا چہرے
پرچم حرف لیے نکلے ہیں

ڈر رہا ہوں کہ اگر جاں سے نہ گزرے
تو تذبذب کے سیہ زنداں میں

وہ مری طرح پشیماں ہوں گے