مجھے سانپ سیڑھی کے
اس کھیل سے
آج گھن آ رہی ہے
مرے دل کے پانسے پہ کھودے گئے
یہ عدد
مجھ کو محدود کرنے لگے ہیں
بساط زیاں پر
مرے خواب کا ریشمی اژدہا
چال کے پیرہن کو نگلنے لگا ہے
میری جست کی سیڑھیاں
سوختہ ہڈیوں کی طرح
بھربھری ہو کے
جھڑنے لگی ہیں
کھیل ہی کھیل میں
سبز چوکور خانے
کسی قبر کی چار دیوار بن کر
مرا دم نگلنے لگے ہیں
سو اے وقت!
میرے مقابل کھلاڑی
آج سے تو بھی آزاد ہے
میں بھی آزاد ہوں
نظم
وقت بھی مرہم نہیں ہے
ثروت زہرا