سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
چاند بلور کی ٹوٹی ہوئی چوڑی کی طرح اٹکا ہے
دامن کوہ کی اک بستی میں
ٹمٹماتے ہیں مزاروں پہ چراغ
آسماں سرمئی فرغل میں ستارے ٹانکے
سمٹا جاتا ہے جھکا آتا ہے
وقت بے زار نظر آتا ہے
سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
صبح کی نقرئی تنویر رچی جاتی ہے
دامن کوہ میں بکھرے ہوئے کھیت
لہلہاتے ہیں تو دھرتی کے تنفس کی صدا آتی ہے
آسماں کتنی بلندی پہ ہے اور کتنا عظیم
نئے سورج کی شعاعوں کا مصفا آنگن
وقت بیدار نظر آتا ہے
سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
آفتاب ایک الاؤ کی طرح روشن ہے
دامن کوہ میں چلتے ہوئے ہل
سینۂ دہر پہ انسان کے جبروت کی تاریخ رقم کرتے ہیں
آسماں تیز شعاعوں سے ہے اس درجہ گداز
جیسے چھونے سے پگھل جائے گا
وقت تیار نظر آتا ہے
سر برآوردہ صنوبر کی گھنی شاخوں میں
زندگی کتنے حقائق کو جنم دیتی ہے
دامن کوہ میں پھیلے ہوئے میدانوں پر
ذوق تخلیق نے اعجاز دکھائے ہیں لہو اگلا ہے
آسماں گردش ایام کے ریلے سے ہراساں تو نہیں
خیر مقدم کے بھی انداز ہوا کرتے ہیں
وقت کی راہ میں موڑ آتے ہیں منزل تو نہیں آ سکتی
نظم
وقت
احمد ندیم قاسمی