سرد راتوں کی گرمی
جھلستے دنوں کی ہوا لے گئی
ریگزاروں پہ
بارود کی بو سے جھلسے ہوئے خشک پتے
بکھرنے لگے
چیختے آگ اگلتے گرجتے ہوئے
زہر آلود لہجے
اچانک بدلنے لگے
پیلی آنکھوں سے تاریک چشمے اترنے لگے
سارے اخبار کی سرخیاں گھٹ گئیں
سہمی سہمی زمیں اپنی آغوش میں
ٹوٹے پھوٹے گھروندے چھپائے ہوئے
ہانپتی کانپتی
کھیل کے اک نئے دور کی منتظر
اپنے بیٹوں کی گنتی میں مصروف ہے
نظم
وقفہ
شاہد ماہلی