EN हिंदी
وجود | شیح شیری
wajud

نظم

وجود

نسیم نازش

;

بتاؤ کون گم ہوا، وہ ہم نفس گیا کہاں
نقوش پا سنا رہے ہیں آج کس کی داستاں

یہ رات، دن کے سلسلے جو ہیں ہمارے درمیاں
ہماری کوئی ابتدا نہ ہے ہماری انتہا

بس اک مہیب فاصلہ
بس اک عجیب سلسلہ

یہ جو بھی کچھ نظر میں ہے
سفر میں ہے، سفر میں ہے

جو رازدان وقت تھے
انہیں کہیں سے لاؤ اب

سنوار دیں جو زندگی جو آگہی عطا کریں
وہ بے نیاز آدمی

کہ جیسے کوئی روشنی
وہ ہست و بود آشنا

وہ جن کا علم لا زوال و بے کراں
نہ گم ہیں وہ نہ دور ہیں

جو دل کی آنکھ بند ہو تو اس میں ان کی کیا خطا
بتاؤ کون گم ہوا وہ ہم نفس گیا کہاں

نقوش پا سنا رہے ہیں آج کس کی داستاں