یہی دل تھا کبھی
جو خون کی ترسیل پر مامور رہتا تھا
دھڑکتا تو نوید زندگی لاتا
اب ایسا ہے
رگوں کا جال تو ویسے ہی پھیلا ہے مرے اندر
مگر دل خون کے بدلے
فراوانی سے بہتے
درد کی گردش سے جو بے حال رہتا ہے
تو دھڑکن ٹیس بن کر
سینے میں اک وحشیانہ رقص کرتی ہے
انہی دو انتہاؤں پر کھڑا
یہ جسم و جاں کا سلسلہ میرا
کبھی جینے نہیں دیتا
کبھی مرنے نہیں دیتا
نظم
وحشت
میمونہ عباس خان