EN हिंदी
وہی درندہ | شیح شیری
wahi darinda

نظم

وہی درندہ

احمد آزاد

;

وہی درندہ
مجھے جنگل سے شہر لے آیا

یہاں اس نے
مسکرانا سیکھا

جو کرتا رہا
میں دیکھتا رہا

اور اپنے اندر حیرتیں جمع کرتا رہا
اس نے ایک عورت کی چھاتیاں

بھنبھوڑ ڈالیں
جس نے اس کے عضو تناسل

اور دل کو تھکا دیا ہے
اس نے آسمان کی طرف دیکھا

اور تھوک نگل لیا
وہاں اسے

کوئی نظر نہیں آیا
مجھے پتا نہ چلتا

وہ لفظوں میں چھپ جاتا
وہیں سے نحوست سے مسکراتا

دکھائی پڑتا
کبھی کبھی

میں نے اس سے
جان چھڑانی چاہی

جب میں پھول لے رہا تھا
اس لڑکی کے لیے

جس کا دل
ایک پھول سے بھی زیادہ

نرم اور ہلکا تھا
میں نے اس سے

جان چھڑانی چاہی
جب دھوپ دیواروں سے

اترنے کا نام نہیں لیتی تھی
اور لمحے اونگھتے تھے

میں ان دھوپ بھری دیواروں میں
اسے دفن کرنا چاہتا تھا

میں نے اس سے جان چھڑانی چاہی
جب میں نے پہلی بار

سچ بولنا سیکھا
یہ اسے پسند نہیں آیا

اس نے کرودھ میں
آئینہ ایجاد کیا

اور میرے سامنے رکھ دیا
میں نے دیکھا

وہی درندہ
میں خود ہوں