EN हिंदी
وہی بوئے گل ہے | شیح شیری
wahi bu-e-gul hai

نظم

وہی بوئے گل ہے

خورشید اکبر

;

کوئی جذبہ ہے نہ کوئی احساس
اب تو وہ ہے بھی نہیں میرے پاس

جیسے وہ تھا ہی نہیں میرے پاس
جیسے وہ تھا ہی نہیں کوئی سوال

جیسے وہ تھا ہی نہیں میرا خیال
جیسے وہ تھا ہی نہیں رات کی نیند

جیسے وہ تھا ہی نہیں میرا خواب
جیسے وہ تھا ہی نہیں میرا نشہ

جیسے وہ تھا ہی نہیں میری شراب
جیسے وہ تھا ہی نہیں میرا خمار

جیسے وہ تھا ہی نہیں صبح کا نور
جیسے وہ تھا ہی نہیں دن کا غبار

جیسے وہ تھا ہی نہیں شام سرور
جیسے وہ تھا ہی نہیں میری مراد

جیسے وہ تھا ہی نہیں لمس حیات
جیسے وہ تھا ہی نہیں عشق مرا

جیسے وہ تھا ہی نہیں شہر نجات
جیسے وہ تھا ہی نہیں پھر بھی اسے

وقت کیوں یاد کیا کرتا ہے
شغل ایجاد کیا کرتا ہے

درد کو شاد کیا کرتا ہے
خود کو آباد کیا کرتا ہے

جسم کے پھول میں احساس کی خوشبو ہے یاد
ہجر کی رات میں امید کا جگنو ہے یاد

مدھ بھرے نین کا وہ آخری جادو ہے یاد
خود کو میں بھول گیا صرف مجھے تو ہے یاد

جیسے میں تھا ہی نہیں جیسے میں ہوں بھی نہیں
عشق آباد فنائے کل ہے

گل کا حاصل وہی بوئے گل ہے