فقط خالی پنجرہ بدن کا پڑا تھا
اور نیم وا ان کواڑوں کی ہر چرچراہٹ میں
حیرانیاں بولتی تھیں
زمیں کی فضا سے
مجھے کس نے باہر ڈھکیلا
فلک تک مری دسترس کیوں نہیں تھی
نہ جانے میں کب تک خلا میں بھٹکتی رہی تھی
وہیں پر
منقش دریچوں میں
سر سبز بیلیں ستونوں سے لپٹی ہوئی تھیں
چمکتے ہوئے چھت کے فانوس کی روشنی میں
بیلوں کے پتوں کی آنکھوں میں ٹھہری نمی
جھلملانے لگی تھی!
مگر سب کی نظریں
سجی ٹیبلوں پر جمی تھیں
کسی کو خبر کب ہوئی تھی
وہاں میں نہیں تھی
نظم
وہاں میں نہیں تھی
عارفہ شہزاد