وہ ابنارمل نہیں تھا
صرف اس کو نارمل بننے کی حسرت تھی
کئی خانوں میں اس کی زندگی بٹنے لگی تھی
وہ اپنی کوشش نا معتبر سے تنگ آ کر
نیم جاں ہو کر
ایک خانے میں پنہ لینے لگا تھا
بنی آماج گاہ تیر نفرت شخصیت اس کی
اسے بھی خود سے نفرت ہو چکی تھی
مگر اس نفرت مانوس کی تکرار سے اس نے
درشت و نا موافق زندگی سے صلح کر لی تھی
یہی تھا کیسۂ اخلاق اس کا
غریبی نے شرافت چھین لی تھی
اور اس کی شخصیت کے پیرہن میں
گہر باروں کے بدلے سنگ ریزے جڑ دیے تھے
وہ ابنارمل نہیں تھا
مگر اب اس میں خود کو نارمل کرنے کا یارا بھی نہیں تھا
اسے اب یہ گوارا بھی نہیں تھا
گلی کوچوں کی ساری گندگی کا
تیرگی کا
وہ اب حق دار وارث بن چکا تھا
نظم
وارث
اکبر حیدرآبادی