میں نے سوچا تمہیں مدت سے نہیں دیکھا ہے
دل بہت دن سے ہے بے چین چلوں گھر ہو آؤں
دور سے گھر نظر آیا روشن
ساری بستی میں ملا ایک مرا گھر بے خواب
پاس پہنچا تو وہ دیکھا جو نگاہوں میں مری گھوم رہا ہے اب تک
روشن کمرے کے اندر!
اور دہلیز پہ تم!
سن کے شاید مری چاپ
تم نکل آئی تھیں بجلی کی طرح
اور وہیں رک سی گئی تھیں!
دیر تک!
پاؤں دہلیز پہ چوکھٹ پہ رکھے دونوں ہاتھ
بال بکھرائے ہوئے شانوں پر
روشنی پشت پہ ہالے کی طرح
سانس کی آمد و شد تھی نہ کوئی جنبش جسم
جیسے تصویر لگی ہو
جیسے آسن پہ کھڑی ہو دیوی
میں نے سوچا ابھی تم نے مجھے پہچانا نہیں
بس اسی سوچ میں لے کر تمہیں اندر آیا
پاس بٹھلا کے کیا یوں ہی کسی بات کا ذکر
تم نے باتیں تو بہت کیں مگر ان باتوں میں
کوئی وابستگی دل
کوئی مانوس اشارہ
لب پہ اظہار خوشی
نہ کوئی غم کی لکیر
ارے کچھ بھی تو نہ تھا
نہ وہ ہنسنا، نہ وہ رونا، نہ شکایت، نہ گلہ
نہ وہ رغبت کی کوئی چیز پکانے کا خیال
نہ دری لا کے بچھانا نہ وہ آنگن کی لپائی کی کوئی بات
نہ نگاہوں میں یہ احساس کہ ہم تم دونوں
ہیں کوئی بیس برس سے اک ساتھ
لاکھ کوشش پہ بھی تم نے مجھے پہچانا نہیں
میں نے جانا تمہیں میں نے بھی نہیں پہچانا
ایک اشارے میں زمانہ ہی بدل جاتا ہے
سلسلہ انس و رفاقت کا کوئی آج بھی ہے
پر یہ ہے اور کوئی
جس سے باندھا ہے نیا رشتۂ زیست
میں بھی ہوں اور کوئی، جس کے ساتھ
تم بھی ہنس بول کے رہ لیتی ہو
وہ بھی تھی اور کوئی
جو وہیں رک گئی اس چوکھٹ پر
جیسے تصویر لگی ہو
جیسے آسن پہ کھڑی ہو دیوی
نظم
واپسی
حبیب تنویر