موت کی پر سکوت بستی کو
دے کے اک زندگی کا نذرانہ
لوگ اپنے گھروں کو لوٹے ہیں
سب کے چہرے ہیں فرط غم سے نڈھال
سب کی آنکھیں چھلک گئی ہیں آج
پھر بھی سرحد میں شہر کی آ کر
ہنستے بچوں کو کھیلتا پا کر
دیکھ کر زندگی کے ہنگامے
ایسا محسوس کر رہے ہیں سب
جیسے افسردگی کے صحرا سے
کوئی آواز دے کے کہتا ہو
موت کے انتظار میں جینا
موت سے بھی بڑی اذیت ہے
زندگی لاکھ عارضی ہو مگر
زندگی جاگتی حقیقت ہے
نظم
واپسی
آفتاب شمسی