EN हिंदी
وادی نیل | شیح شیری
wadi-e-nil

نظم

وادی نیل

یوسف ظفر

;

جمال مرگ آفریں! یہ شب میری زندگی ہے
نچوڑ دے اس کے چند لمحوں کی عشرتوں میں

وہ مے وہ نشہ کہ ساغر ماہ وصال میں ہے
وہ مے کہ تیرے جمال میں ہے

وصال میں ہے
وصال! تیرا وصال وہ شعلہ اجل ہے

کہ جس میں جل کر کئی پتنگے ابد کی منزل کو پا چکے ہیں
ابد کی منزل!

سحر کی پہلی کرن وہ ناگن
کہ میرے سینے سے آخری سانس بن کے پلٹے گی آ مری جاں!

جمال مرگ آفریں! یہ شب میری زندگی ہے
میرے لبوں نے وہ لب بھی چومے ہیں جن میں مرگ گراں نہیں تھی

وہ پھول سے لب کہ جن کی تہہ دار پتیوں میں
تمازت بادہ وفا تھی

مرے جواں سال بازوؤں نے
دھڑکتے مرمر کی ان چٹانوں سے رس نچوڑا ہے زندگی کا

جنہیں گماں تھا کہ میرے پہلو میں دم نکلنا ہی زندگی ہے
مرے ہی سینے پہ جاگتی ہیں ابھی وہ راتیں

کہ جن میں ابھرے ہیں آفتاب جمال میری مسرتوں کے
وہ آفتاب جمال جو کل سحر کی پہلی کرن کے ڈسنے سے

میرے ہم راہ جل بجھیں گے
ترے تبسم کی لو ابھرتی ہی جا رہی ہے

تجھے نظر آ رہی ہے شاید وہ زیست جو لاش بن کے تڑپے گی
کل سحر کو

مگر میں کچھ اور دیکھتا ہوں
اگر میں یہ شب گزار دیتا گرسنہ شیروں کے جنگلوں میں

جہاں ہر اک لحظہ موت منہ پھاڑ کر جھپٹتی ہے
بے بسی پر

اگر میں یہ شب گزار دیتا کسی سمندر کے سرد سینے کی دھونکنی پر
جہاں ہر ایک لحظہ موت منہ پھاڑ کر جھپٹتی ہے

بے بسی پر
اگر میں یہ شب گزار دیتا کسی غم مرگ آفریں میں

کہ جس کے چنگل میں لحظہ لحظہ لہو ٹپکتا ہے آرزو کا
عجب نہ تھا آج شب اگر میرا کوئی دشمن

مرے بدن سے یہ نوک خنجر نکال دیتا وہ خوں جو اب میری زندگی ہے
جو اب ترے پیکر مسرت کی وادیوں میں

مری حقیقت کا راز داں ہے
قبول ہے مجھ کو آج کی شب سحر ہے جس کی ابد کی منزل

جمال مرگ آفریں یہ شب میری زندگی ہے
مرا مقدر کہ آج کی شب ہے مجھ کو حاصل یہ تیرا پیکر

مرا مقدر کہ میں نے خود موت کو پکارا ہے تیری خاطر
مرا مقدر کہ میں ہوں وہ موت کا مسافر

جو اپنی منزل پہ آ گیا ہے ترے شبستاں میں خود ٹھہر کر
ترے لبوں سے حیات پا کر

ترے جمال حیات پرور سے لو لگا کر
تری نگاہوں کی گہری جھیلوں میں تیر کر، مشعلیں جلا کر

گداز پیکر کی ریشمی چلمنیں اٹھا کر
دھڑکتے دل میں ترانے بو کر زمانے لا کر

ازل ابد کو سمیٹ کر، بے کراں بنا کر
ترے بدن کی لطافتوں میں مسرت زندگی ملا کر

ترے لہو میں شرارے بھر کر حرارت جاوداں بسا کر
ترے خمستان دلبری کو جہاں میں اک داستاں بنا کر

تجھے اجل سے قریب لا کر
حقیقت زندگی دکھا کر

کہ میں ہوں وہ موت کا مسافر
ترے شبستاں کے چور دروازے سے گزر کر

جو اپنی منزل پہ آ گیا ہے
وہ لوگ جو رو رہے ہیں مجھ کو

کہ میں نے خود موت کو پکارا ہے تیری خاطر
وہ لوگ کیا جانیں زندگی کو

انہیں خبر کیا کہ موت ہر لحظہ ان کی ہستی کو کھا رہی ہے
انہیں خبر کیا کہ زندگی کیا ہے میں سمجھتا ہوں زندگی کو

کہ آج کی شب یہ زندگی میری زندگی ہے
یہ زندگی ہے مری جسے میں نے آج کی شب

ترے مسرت کدے میں لا کر
ابد سے ہم دوش کر دیا ہے

اجل کو خاموش کر دیا ہے
تھرک رہا ہے ترا بدن لذت طرب سے

چمک رہی ہیں تری نگاہیں خمار شب سے
اچک اچک کر سحر مجھے دیکھنے لگی ہے

سحر کا تھا انتظار کب سے