EN हिंदी
اٹھیں گے موت سے پہلے | شیح شیری
uThenge maut se pahle

نظم

اٹھیں گے موت سے پہلے

علی اکبر ناطق

;

اٹھیں گے موت سے پہلے اسی سفر کے لیے
جسے حیات کے صدموں نے ملتوی نہ کیا

وہ ہم کہ پھول کی لو کو فریب دیتے تھے
قریب شام ستاروں کی رہ گزر پہ چلے

وہ ہم کہ تازہ جہاں کے نقیب زن تھے نئے
صبا کی چال سے آگے ہماری چال رہی

مگر گمان کے قدموں نے اس کو طے نہ کیا
وہی سفر جو ہمارے اور اس کے بیچ رہا

جسے حیات کے صدموں نے ملتوی نہ کیا
اٹھا کے ہاتھ میں نیزے پلا کے آب سراب

کمین گاہ ہوس سے نشانے دل کے لیے
تمام سمت سے آئی شہابیوں کی سپاہ

ہماری ذات کو گھیرا مثال لشکر شام
ہزار بار الجھ کے پھٹا لباس یقیں

مگر ٹلی نہ کبھی اس مباحثے سے زباں
جو ساکنان زمیں اور ہمارے بیچ ہوا

رہ وقار پہ بیٹھے تھے آئنے لے کر
جنہیں ثبات پہ کوئی بھی اختیار نہ تھا

تھما کے ہاتھ میں غم کے براق دل کی عناں
نکل گئے نہ رکے روح کی حدوں سے ادھر

فلک کے کہنہ دریچے سلام کرتے رہے
مگر چراغ کا سایہ ابھی وجود میں ہے

ضرور اپنے حصاروں میں لے گا نور دماغ
سحر کے وقت بڑھے گا غنودگی کا اثر

دراز ہوگا وہیں درد کے شباب کا قد
ملا غبار کی صورت جہاں نصیب کا پھل

جہاں شکار ہوا ہے مری زباں کا ہنر
وہیں سے ڈھونڈ کے لائیں گے آدمی کی خبر

اٹھیں گے موت سے پہلے اسی سفر کے لیے