EN हिंदी
اٹھ | شیح شیری
uTh

نظم

اٹھ

امجد نجمی

;

اٹھ کہ خورشید آسماں پر جلوہ افشاں ہو گیا
اٹھ کہ گویا تیری بیداری کا ساماں ہو گیا

اٹھ کہ پہنچا چاہتے ہیں غیر منزل کے قریب
تو بدلتا ہے ابھی تک کروٹیں اے بد نصیب

اٹھ کہ جد و جہد سے ہو تیری ہستی کامیاب
خواب آخر خواب ہے کب تک رہے گا محو خواب

اٹھ کہ دنیا کو ترے ذوق طلب سے کام ہے
زندگی کیا ہے فقط سعیٔ عمل کا نام ہے

اٹھ کہ بے رونق نظر آتا ہے اب صحن‌ چمن
بلبل و طوطی پہ سبقت لے گئے زاغ و زغن

اٹھ کہ جینا ہے تو قانون خدا پر غور کر
لیس لی الانسان الا ما سعیٰ پر غور کر

اٹھ کہ دنیا تک رہی ہے پے بہ پے تیری طرف
دیکھ چشم غور سے اک بار تو اپنی طرف

اٹھ کہ تیرے ہاتھ میں ایقان کی شمشیر ہے
تو اگر چاہے تو یہ دنیا ترا نخچیر ہے

اٹھ کہ بے ذوق عمل یہ تیغ بھی بے کار ہے
تو بھی تیری زندگی بھی نقش بر دیوار ہے