میں نے دیکھی نہیں
خواب بنتی ہوئی انگلیاں
جن کا لمس گداز
وقت کے سرد گالوں سے بہتا ہوا
میرے ہونٹوں پہ آیا
تو صدیوں کی نمکینیاں سنگ بستہ دلوں کے سمندر میں
ابھرے پہاڑوں کا اک سلسلہ بن چکی تھیں
وہ کیا سلسلہ تھا
جو اک گود سے گور تک ریشمی تار سا تن گیا
جس پہ چلتے زمانے
خداوند اعلیٰ کے احکام رحمت اٹھائے ہوئے رقص کرتے گزرتے
تو مٹی پہ نقش و نگاران غم مسکراتے
تجھے یاد آتے تجھے یاد کرتے ہوئے
یوں گزرتے
کہ جیسے کسی بھید بھاؤ بھری چاندنی رات سے
چاند کا بانکپن
بادلوں کے لڑکپن کے گالے اڑاتے ہوئے
خواب لبریز پریوں سے چھپ چھپ کے گزرے
یہ دکھنے دکھانے کی ساری مشیت
یہ چھپنے چھپانے کی ساری اذیت
کوئی جھیلتا ہے
جو تو نے اکیلے میں جھیلی
میں کتنے دنوں بعد آیا ترے پاؤں چھونے
حسابات کمپیوٹر سے نکل کر
کسے ڈھونڈنے جا چکے ہیں
بڑی سے بڑی بات کو
ایک بھیگی ہوئی مسکراہٹ میں کہنے کا تجھ کو سلیقہ تھا
اعداد و الفاظ کی بھیڑ میں
کس قدر میں اکیلا ہوں
تجھ کو خبر ہے
عطا کر مجھے بھی
کوئی ایسا اچھا ہنر
پھول ہونٹوں کے
مردہ زمانے پہ رکھوں تو
خوشبو تری
گل بدن بن کے جاگے
ترے سانس میں سانس لینے کی راحت
مری یاد کے باغ میں
ایک جادو زدہ نیم خوابیدہ شہزادئ زندگی کی طرح منتظر ہے
یہاں اپنے ہونے سے کس کو مفر ہے
کوئی نیند میں جاگنے کی اذیت نہیں جانتا
اپنی جنت کا منظر مرے ملگجے خواب پر کھول دے
کوئی شیریں تکلم مرے زہر میں گھول دے
فاصلہ نیند اور موت کے درمیاں
اپنی موجودگی سے بنا
کر عطا معجزاتی ہنر
میں تو نوٹوں کی گنتی میں الجھے زمانے کی
وہ میل ہوں
جس پہ مکھی بھی آ کر نہیں بیٹھتی
نظم
اسی کے لیے
علی محمد فرشی