اسی آگ میں
مجھے جھونک دو
وہی آگ جس نے بلایا تھا
مجھے ایک دن دم شعلگی
دم شعلگی مرا انتظار کیا بہت
کئی خشک لکڑیوں شاخچوں، کے حصار میں
جہاں برگ و بار کا ڈھیر تھا
دم شعلگی
مجھے ایک پتے نے یہ کہا تھا گھمنڈ سے
ادھر آ کے دیکھ
کہ اس تپیدہ خمار میں
ہمیں ہم ہیں
لکڑیوں شاخچوں کے حصار میں
یہاں اور کون وجود ہے
یہاں صرف ہم ہیں رکے ہوئے
کہیں آدھے اور
کہیں پورے پورے جلے ہوئے
دم شعلگی
ہمیں جو مسرت رقص تھی
تمہیں کیا خبر
اگر آگ تم کو عزیز تھی
تو یہ جسم کون سی چیز تھی
جسے تم کبھی نہ جلا سکے
وہ جو راز تھا پس شعلگی نہیں پا سکے!
سو کہا تھا میں نے یہ ایک ادھ جلے برگ سے
مجھے دکھ بہت ہے کہ آگ نے
مرا انتظار کیا بہت
مگر ان دنوں
کسی اور طرز کی آگ میں
مرا جسم جلنے کی آرزو میں اسیر تھا
مگر ان دنوں میں نہ جل سکا
میں نہ جون اپنی بدل سکا
مگر اب وہ آگ
کہ جس میں تم نے پناہ لی
جہاں تم جلے
جہاں تم عجیب سی لذتوں سے گلے ملے
اسی آگ میں مجھے جھونک دو
نظم
اسی آگ میں
رفیق سندیلوی