جس روز دھوپ نکلی
اور لوگ اپنے اپنے
ٹھنڈے گھروں سے باہر
ہاتھوں میں ڈالے
سورج کی سمت نکلے
اس روز تم کہاں تھے
جس روز دھوپ نکلی
اور پھول بھی کھلے تھے
تھے سبز باغ روشن
اشجار خوش ہوئے تھے
پتوں کی سبز خوشبو
جب سب گھروں میں آئی
اس روز تم کہاں تھے
جس روز آسماں پر
منظر چمک رہے تھے
سورج کی سیڑھیوں پر
اڑتے تھے ڈھیروں پنچھی
اور صاف گھاٹیوں پر
کچھ پھول بھی کھلے تھے
اس روز تم کہاں تھے
جس روز دھوپ چمکی
اور فاختہ تمہارے
گھر کی چھتوں پہ بولی
پھر مندروں میں آئیں
خوشبو بھری ہوائیں
اور ننھے منے بچے
تب آنگنوں میں کھیلے
اس روز تم کہاں تھے
جس روز دھوپ نکلی
جس روز دھوپ نکلی
اور الگنی پہ ڈالے
کچھ سوکھنے کو کپڑے
جب اپنے گھر کی چھت پہ
خاموش میں کھڑا تھا
تنہا اداس بیلیں
اور دوپہر کے پنچھی
کچھ مجھ سے پوچھتے تھے
اس روز تم کہاں تھے
نظم
اس روز تم کہاں تھے
تبسم کاشمیری